الحمد للہ رب العالمین ۔ والصلاة والسلام على رسول الله الأمين و خاتم النبيين.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وه اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔
اللہ تعالی نے اس قوم کو بطور اعزاز و اکرام ربانی تحائف ، اور الہی انعامات سے نوازا ہے اور ان تحائف میں سے : مقدس مہینے ، اور ان کے مبارک اور پاکیزہ ایام ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔ یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔ [توبہ: 36]
مقدس مہینے ہیں: ((محرم ، رجب ، ذوالقعدہ ، ذوالحجہ))۔
ان مہینوں میں افضل مہینہ اللہ کا مہینہ محرم ہے۔ یہ سال کا اول مہینہ ہے ، اور اس ماہ لوگ حج کی ادائیگی کے بعد گھروں کو واپس آتے ہیں ، اور اس مہینہ کے روزے رکھنا مستحب ہے ، اور اس میں عاشورہ کا دن ہے ، جو اللہ کے دنوں میں سے ایک ہے۔
اس عظیم مہینہ میں بہت سے اعمال صالحہ بجا لائے جاتے ہیں جن کی ایک مسلمان کو شدید حرص کرنی چاہیے۔ میں نے ان میں سے کئی ایک اعمال جمع کیے ہیں:
أولا : ((ہم محرم کے مہینہ کا کیسے استقبال کریں ؟)):
ہم اس کا استقبال ، اللہ رب العزت سے اپنے گناہوں سے توبہ کے ذریعہ کریں ۔ یہ ایک نئے سال کا آغاز ہے ، اور آپ کے اعمال پر گواہ ہے۔
ارشاد إلہی ہے :
اے ایمان والو!اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جس کے بعد گناہ کی طرف لوٹنا نہ ہو، قریب ہے کہ تمہارا رب تمہاری برائیاں تم سے مٹا دے اور تمہیں ان باغوں میں داخل کر دے جن کے نیچے نہریں رواں ہیں جس دن اللہ نبی اور ان لوگوں کو جو اُن کے ساتھ ایمان لائے رسوا نہ کرے گا، ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں دوڑتا ہوگا، وہ عرض کریں گے، اے ہمارے رب!ہمارے لیے ہمارا نور پورا کردے اور ہمیں بخش دے، بیشک تو ہر چیز پرخوب قادرہے۔
(( توبہ نصوح )): تمام گناہوں سے مخلصانہ توبہ جس سے بندہ اللہ کے چہرے کے سوا کچھ نہیں چاہتا اور کبھی بھی گناہ کے طرف لوٹنا نہیں چاہتا (1)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(( يا أيُّها النَّاسُ، توبوا إلى اللهِ واستغفِروه؛ فإنِّي أتوبُ إلى اللهِ وأستغفِرُه في كلِّ يومٍ مِائةَ مَرَّةٍ )) ([2])
((اے لوگو ، اللہ سے توبہ کرو اور اس سے معافی مانگو ، بے شک میں اللہ سے توبہ کرتا ہوں اور اس سے روزانہ سو بار استغفار کرتا ہوں)) (2)
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
((إنَّ اللَّهَ عز وجل يَبْسُطُ يَدَهُ باللَّيْلِ؛ لِيَتُوبَ مُسِيءُ النَّهَارِ، وَيَبْسُطُ يَدَهُ بالنَّهَارِ؛ لِيَتُوبَ مُسِيءُ اللَّيْلِ، حتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِن مَغْرِبِهَا )) ([3]).
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
(( لوْ أخطأتُمْ حتى تبلغَ خطاياكُمُ السماءَ ثمَّ تُبتُمْ، لتابَ اللهُ عليكُمْ )) ([4]).
امام مجاہد کا قول ہے :
((جو صبح اور شام توبہ نہیں کرتا ، پھر وہ ظالموں میں سے ہے)) ([5])
اللہ عزوجل فرماتے ہیں :
{ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ } {الحجرات:11}
{اور جو توبہ نہیں کرتا ، وہ ظالم ہیں} {الحجرات: 11}
(( تنبیہ )):
لیکن میرے مسلمان بھائی جان لو ! کہ توبہ کی شرائط ہیں۔ اگر گناہ کا تعلق ، حقوق اللہ سے ہے تو پھر توبہ کی درج ذیل شروط ہیں :
الف۔ گناہ پر پچھتاوا ([6])
ب۔ گناہ چھوڑ دینا۔
ج- دوبارہ نہ کرنے کا عزم۔
د۔ وہ توبہ اس وقت ہو جب توبہ قبول ہوسکے۔ ([7])۔ ( اگر غرغرہ کی حالت میں ہے یا مشرق سے طلوع شمس کے بعد توبہ کی ہے تو پھر توبہ قبول نہیں ہوگی)
ثانیا : (خود احتسابی کے لیے ایک وقفہ):
میرے مسلمان بھائی ! یہ ایک سال تھا جو گزر چکا ہے اور ہر گزرتا دن ، آپ کو دنیا سے دور کرتا اور آخرت کے قریب لارہا ہے۔
اے غفلت کا شکار لوگو !!
زمانہ آپ کو کاٹتا جا رہا ہے ، اور عمر عزیز روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے ۔ تو آپ کہاں ہیں؟!
اے غافلو !!
اب ہم سال کے اختتام پر ہیں ، یہ سال نیک اعمال اور گناہوں کے ساتھ گزر چکا ہے اور قلم اٹھا لیے گئے ہیں اور اعمال نامے خشک ہوچکے ہیں، تو آپ کہاں منہمک ہیں؟!
اے غفلت میں پڑے لوگو !!
گزشتہ سال کردہ اعمال کو یاد کرکے اپنے آپ کو نصیحت کرو کیونکہ تم اپنے اعمال صالحہ و سیئہ سے بخوبی واقف ہو !!
کھڑے ہو جاؤ اور اپنا احتساب کرو!
کیا تم اس سال کے اپنے اعمال سے مطمئن ہو؟!
کیا تم ان اعمال کے ساتھ رب سے ملاقات کرنے کے لیے مطمئن ہو؟!
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
جان لیں کہ خود احتسابی کو تین اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے:
الف. عمل سے قبل محاسبہ۔
ب. عمل كے دوران محاسبہ۔
ج۔ عمل کے بعد محاسبہ۔
ثالثا : (کثرت سے روزہ رکھنا ):
میرے پیارے بھائی ( اللہ ہم پر اور آپ پر رحم کرے) ! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ محرم کے روزے رمضان کے بعد افضل روزے ہیں (اور یہی علماء کی اکثریت کا قول ہے)۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: فرض نماز کے بعد کون سی نماز افضل ہے اور ماہ رمضان کے بعد کون سے مہینہ کے روزے افضل ہیں ؟
علماءفرماتے ہیں :
یہ حدیث واضح ہے کہ رمضان کے بعد ایک مسلمان کے لیے افضل روزے اللہ کے مہینہ محرم کے روزے ہیں۔ ([10])۔
میرے پیارے بھائی مستعد و تیار ہوجاؤ !! اس مبارک مہینے میں روزے رکھو۔!
مبارک ہے وہ جس نے اپنے آپ کو سب سے بڑی تپش کے دن سے بچنے کے لیے بھوکا رکھا !
اور مبارک ہے وہ جس نے اپنے آپ کو سب سے زیادہ سيرابى کے دن کے لیے پیاسا رکھا !
مبارک ہے وہ جس نے اس دن کے لیے موجودہ بھوک چھوڑی جسے اس نے نہیں دیکھا !
مبارک ہے وہ جس نے ، ابدی گھر کے لیے ، اس عارضی گھر میں کھانا چھوڑا ۔
{اس (آخرت) کا کھانا بھی مستقل کھانا اور سایہ بھی پائیدار } !!
رابعا : ((نافرمانی اور گناہوں میں پڑنے سے بچو)):
{ إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ } {التوبة: 36}
اللہ تعالیٰ نے مقدس مہینوں کے بارے میں فرمایا: {ان میں اپنے آپ پر ظلم نہ کرو} ، اور یہ وجہ تفسیر ، تفسیر کی ان وجوہ میں سے ایک ہے کہ اللہ کا فرمان : ((فيهن )) میں ضمير چار مقدس مہینوں کی طرف لوٹ رہی ہے کیونکہ قریب ترین یہی مہینے مذکور ہیں ۔ ([11])۔
قتادہ کاقول ہے : مقدس مہینوں میں ظلم و زیادتی دوسرے مہینوں میں ظلم سے بدتر ہے ([12])
سوال: ظلم ہر مہینے میں حرام ہے ، تو حرمت والے مہینوں کو کیوں مخصوص کیا گیا ہے؟
الجواب :
الله تعالى نے ان چار مقدس مہینوں میں ظلم نہ کرنے کا خصوصی ذكر فرما کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ بڑے عظيم و بابرکت مہینے ہیں اور یہ کہ ان مہینوں میں گناہ کی شناعت و قباحت بڑھ جاتی ہے ۔ ([13])
میں کہتا ہوں کہ اس کی کئی ايک مثالیں ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {حج کے دوران کوئی فحش گوئی نہیں ہے ، نہ بدتمیزی ہے ، نہ لڑائی جھگڑا ہے} {البقرہ: 197} ۔ حج اور دیگر مہینوں میں بے حیائی حرام ہے ، لیکن حج میں یہ خاص طور پر حرام ہے اس کی وجہ حج کا فضل و شرف کا حامل ہونا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس میں جرم کی قباحت بھی بڑھ جاتی ہے۔
خامسا : (عاشوراء کا روزه):
عاشوراء سے مراد ، محرم کے مہینے کی دسویں تاریخ ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
من صام عاشوراءَ غُفِرَ له سنةٌ
((جو شخص عاشوراء کا روزہ رکھے گا اسکے ایک سال کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے)) ([14])
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم، نے فرمایا : وصِيامُ يومِ عاشُوراءَ: إِنِّي أحْتَسِبُ على اللهِ أنْ يُكَفِّرَ السنَةَ التِي قَبْلَهُ )) ([15])
میرے پیارے بھائی مستعد ہو جاؤ ! اس دن روزہ رکھو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کے خواہشمند تھے.
جیسا کہ ابن عباس نے کہا: ((ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائے عاشوراء کے دن کے اور اس رمضان کے مہینے کے اور کسی دن کو دوسرے دنوں سے افضل جان کر خاص طور سے قصد کرکے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔))])۔
سابعا : ((دسویں کے ساتھ نویں دن کا روزہ رکھنا)):
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں کے ساتھ نویں روزے کا عزم کیا جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے۔
وجہ استدلال :
نبی ، صلی اللہ علیہ وسلم ، نے دسویں کا روزہ رکھا ، اور نویں روزے کا ارادہ اور عزم کیا ([18])
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :
(( صوموا التاسع والعاشر، وخالفوا اليهود )) ([19])
((نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو)) (19)
سابعا : ((روزہ داروں کے لیے افطاری کرانا بالخصوص عاشوراء کے دن)):
میرے پیارے بھائی! ایک بہت اچھا موقعہ ہے جسے آپ کو ضائع نہیں کرنا چاہیے ، جو کہ:
((عاشوراء کے روزے رکھنے والوں کے لیے افطاری ہے ))
سوال: عاشوراء کا دن سال میں کتنی بار آتا ہے؟
جواب: یہ سال میں ایک بار محرم کے مہینے میں آتا ہے۔
میرے پیارے بھائی ! یہ ایک بہت اچھا موقعہ ہے جسے ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔ اللہ کے فضل سے آپ اس سال عاشوراء کو دس ، بیس یا تیس دن بنا سکتے ہیں !!
سوال: یہ کیسے ممکن ہے جب کہ عاشوراء سال میں صرف ایک بار آتا ہے؟
جواب: افطار کرانے سے۔
آپ عاشوراء کا روزه رکھتے ہیں ، اور اگر آپ نے بیس روزہ داروں کا روزہ افطار کرايا تو آپ کے لیے بیس روزوں کا ثواب گا۔ اس لیے عاشوراء اس سال آپ کے لیے [21] دن ہو گا۔
اللہ کے رسول ، صلى الله عليه وسلم ، نے فرمایا :
لہذا ، میرے مسلمان بھائی ، عاشوراء کے روزے داروں کا روزہ افطار کرانا یقینی بنائیں ، اور یہ نہ كہیں کہ آپ کا اجر ایک دن كا اجر ہے ، بلکہ علو ہمت کا مظاہرہ کریں ، اور کثرت سے روزہ افطار کرائیں۔
(( تنبیہ )):
دوگنا اجر پانے کے لیے اپنے رشتہ داروں سے افطاری کی ابتداء كيجئے :
الف۔ صائمین (روزہ داروں ) کی افطاری کا اجر۔
ب۔قرابت داری کا اجر ۔
(( تنبیہ)):
ممکن ہے کہ آپ کے والد یا والدہ قبر میں ہوں چنانچہ انہیں عاشوراء کی طرح ایک دن کے اجر کی اشد ضرورت ہے ، اور آپ ، اللہ کے فضل سے ، ان کی طرف سے روزہ افطار کر کے انہیں یہ ثواب فراہم کر سکتے ہیں۔ لہذا یہ چیز مت بھولیں.
علماء كے راجح قول کے مطابق یہ چیز ہر دوست ، عزیز ، یا رشتہ دار پر بھی منطبق ہوتی ہے جو مر گیا ہے ، اور آپ اس تک یہ نیکی پہنچا سکتے ہیں -شاید اللہ ہمارے لیے بھی لوگوں کو یہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہمیں موت کے بعد یاد رکھیں ، اور جو وفا کرتا ہے ، اللہ اس کے لیے وفا کرتے ہیں۔
(( ایک سوال )):
اگر میرے پاس افطاری کے لیے پیسے نہیں ہیں تو میں کیا کروں؟
(جواب):
اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں تو آپ کو دو کام کرنے ہوں گے:
(( پہلا )): آپ نیت كو لازم کر لیں،اس لیے خلوص نیت سے ارادہ کریں کہ اگر آپ کے پاس پیسہ ہوتا تو آپ تمام روزہ دار مسلمانوں کو کھانا کھلاتے۔ آپ کو آپ کے خالص ارادے پر ، ان شاء اللہ ، اجر ملے گا۔
(( دوسرا )): لوگوں کو اس نيكى کی یاد دلانے کی جدوجہد کرو ۔ كيونكہ (نیکی کی طرف راہنمائی کرنی والا اور نیکی کرنے والا دونوں اجر میں برابر ہیں)۔
ثامنا : ((لوگوں کو اس دن روزہ رکھنے کی دعوت دینا اور انہیں اس کی یاد دہانی کرانا )):
میرے پیارے بھائی ! آپ داعی الی اللہ کیوں نہیں بنتے ، اور لوگوں کو اس دن روزہ رکھنے کی تذکیر کیوں نہیں کرتے ہیں؟
اپنے آپ کو ، اپنے فیملی کو ، پھر اپنی عمارت کے رہائشیوں کو اس دن کے روزے کی تذکیر سے اپنی دعوت کا آغاز کریں۔ اس طرح کہ عمارت کے داخلی دروازے پر ایک حدیث چسپاں کرکے،مثال کے طور پر ،جو عاشوراء کے دن کے روزے کی یاد دہانی کراتی ہو ، نیز آپ کام کی جگہ اور مسجد میں ، یا بروشر یا پیغامات تقسیم کرکے دعوت کا کام کرسکتے ہیں ۔اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ ان شاء اللہ ، نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے حقدار قرار پائیں گے اور آپ پر اللہ کی رحمتیں اور سلامتیاں نازل ہونگی ؛ جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( رحمَ اللهُ امرءًا سمع منا شيئًا فبلَّغه كما سمعه ))
((خدا اس شخص پر رحم کرے جس نے ہم سے کچھ سنا اور پھر اس کو ایسے پہنچایا جیسا کہ اس نے اس کو سنا تھا )) ([21])
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(جس کسی نے کسی کو نیک کام کی رہنمائی کی اس بتانے والے کو اس کام کرنے والے کے برابر ثواب ہوگا.) ([22])
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
![]() |
| اچھے کام کو رواج دینے کی فضیلت |
جو شخص اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے پھر لوگ اس کے بعد اس کام پر عمل کریں تواس کو اتنا ثواب ہو گا جتنا سب عمل کرنے والوں کو ہو گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی ......)) ([23])
مترجم : ابو احمد الحسام
--------------------------------------------
([1]) ــ تفسير الطبري ( 10 / 888 ) طـ ( دار الحديث ) القاهرة، ( معالم التنزيل ) للبغوي ( صـ 1330 ) طـ ( دار ابن حزم ) بيروت ـ لبنان، وتفسير القرطبي ( 18 / 153 ) طـ ( المكتبة التوفيقية ) القاهرة، تفسير ابن كثير ( 4 / 508 ) طـ ( دار القلم للتراث ) القاهرة.
([2]) ــ صحيح: رواه أحمد ( 18293 )، والنسائي في ( الكبرى ) ( 10278 )، وأصله عند مسلم مع اختلاف اللفظ (2702).
([3]) ــ رواه مسلم ( 2759 ).
([4]) ــ صحيح : رواه ابن ماجه ( 4248 ).
([5]) ــ حلية الأولياء وطبقات الأصفياء ( 3 / 294 ) طـ ( دار الكتب العلمية ) طـ الأولى (1409) بيروت ـ لبنان.
([6]) ــ ففي الحديث (( الندم توبة )) صحيح لغيره: رواه الحاكم ( 7613 ).
([7]) ــ والمقصود قبل الغرغرة لقول النبي صلى الله عليه وسلم: (( إن الله يقبل توبة العبد ما لم يغرغر )) حسن: رواه الترمذي (3537 )، وابن ماجة (4253 )، ومعنى (( يغرغر )) تبلغ روحه حلقومه فيكون بمنزلة الذي يتغرر به، انظر: الترغيب والترهيب ( 1 / 380 ) تحت الحديث رقم: ( 4600 ) طـ ( دار التقوى ) القاهرة.
وكذلك من الوقت الذي لا تقبل فيه التوبة ( بعد طلوع الشمس من مغربها ) كما في الحديث: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (( من تاب قبل أن تطلع الشمس من مغربها تاب الله عليه )) رواه مسلم ( 2703 ).
([8]) ــ إسناده منقطع : وهو مشهورعن عمر (رضي الله عنه): رواه أحمد في (الزهد) (633) وابن أبي الدنيا في (محاسبة النفس) .
([9]) ــ رواه مسلم ( 1163 ) وأبو داود ( 2429 ) .
([10]) ــ لطائف المعارف ( صــ 38 ) طـ ( مكتبة الصفا ) القاهرة .
([11]) ــ ومن المفسرين من قال : (( فيهن )) عائدة على (( الاثنى العشَرَ الشهر )) انظر: تفسير الطبري ( 5 / 879 ) طـ ( دار الحديث ) القاهرة، تفسير البغوي ( معالم التنزيل ) ( صـ 556 ) طـ ( دار ابن حزم ) بيروت ـ لبنان، تفسير القرطبي ( 8 / 116 ) طـ ( المكتبة التوفيقية ) القاهرة.
([12]) ــ إسناده حسن : رواه ابن جرير الطبري في تفسيره ( 5 / 878 ) رقم ( 16707 ) طـ ( دار الحديث ) القاهرة .
([13]) ــ تفسير القرطبي ( 8 / 116 ) طـ ( المكتبة التوفيقية ) القاهرة، تفسيرابن كثير ( 2 / 427 ) طـ ( دار القلم للتراث ) القاهرة .
([14]) ــ صحيح لغيره : أصله عند مسلم، وسبق تخريجه، وهذه رواية الطبراني في ( الأوسط ) .
([15]) ــ رواه مسلم ( 1162 )، وأبو داود ( 2425 )، والترمذي ( 752 )، وابن ماجه (1730 )، وابن حبان ( 3632 ) .
([16]) ــ رواه البخاري ( 2006 ) .
([17]) ــ رواه مسلم ( 1134 ).
([18]) ــ صحيح مسلم بشرح النووي ( 8 / 16 ) طـ ( مؤسسة قرطبة ).
([19]) ــ إسناده صحيح : رواه عبد الرزاق ( 7839 ) ، والبيهقي في ( الكبرى ) ( 8404 ).
([20]) ــ صحيح: رواه الترمذي ( 807 )، والنسائي في الكبرى (3331 )، وابن ماجة ( 1746 ) .
([21]) ــ صحيح : رواه أبو داود ( 3660 )، والترمذي ( 2657 )، وابن حبان ( 66 ) .
([22]) ــ صحيح: رواه ابن حبان ( 195 )، والبزار ( 2742 )، والطبراني في ( الكبير ) ( 5945 ).
([23]) ــ رواه مسلم ( 1017 )، والنسائي ( 2554 )، والترمذي ( 2675 ) وابن ماجه ( 203 ).














0 تبصرے
abdmanalhusaam@gmail.com